درد کتنے شامل تحریر ہونے سے رہے
آپ کی خاطر ہم اب تصویر ہو نے سے رہے
آہ کی کچھ اور بھی تفسیر ہو نا چاہیے
بس تتبع کے لیے ہم میر ؔہونے سے رہے
ہو محبت تو اُسے کر لیں گلے کا ہار بھی
زہر، پتھر ، خار سب زنجیر ہونے سے رہے
وہ فلک کو تک رہا ہے پھر اداسی اوڑھ کر
خواب یوں اُمید کے تعبیر ہونے سے رہے
تو ہماری سوچ کی رفتار کو محدود کر
ان دلاسوں سے تو ہم تسخیر ہونے سے رہے
سعدیہ بشیر