غَزَل
اَیسے تو اَنگڑائی نہ لو
ہَم سے خَطا ہو جائے گی
ظالِم نہ یُوں لَہرا کے چَل
پاگَل صَبا ہو جائے گی
پَہلُو میں بَیٹھو تو سَہی
رَنگِیں فَضا ہو جائے گی
اَچھی نَہیں یہ عاجزی
دُنیا خُدا ہو جائے گی
مَحکُوم کی اِک دِن صَدا
بانگِ دَرا ہو جائے گی
ہَم سے بِچَھڑ کے تَنہائی
بے آسرا ہو جائے گی
اُس کی آنکھیں کیا کَہیں
بَس ! انتِہا ہو جائے گی
چُھو کَر جو دیکھو گے عقیلؔ
رَںگِ حِنا ہو جائے گی