صاف چھپتے بھی نہ تھے - تنویر نقوی

2015-11-24 1

صاف چھپتے بھی نہ تھے
سامنے آتے بھی نہ تھے
کیسا پردہ تھا کہ پردے کو گراتے بھی نہ تھے
ہائے وہ شرمگیں آنکھیں وہ حیا کی سرخی
وہ ہر اندازمیں ہر ناز میں معصومی سی
ہائے وہ جلوے کہ نظروں میں سماتے بھی نہ تھے
صاف چھپتے بھی نہ تھے
حسن ایسا کہ جو افسانوں کا عنوان بنے
اور قد سینکڑوں فتنوں کا جوسامان بنے
اتنے سادہ تھے کہ فتنوں کو جگاتے بھی نہ تھے
صاف چھپتے بھی نہ تھے
حسن اور عشق میں یوں پہلی ملاقات ہوئی
بات کوئی نہ ہوئی پھر بھی ہر اک بات ہوئی
خود کھنچے آتے تھے اور ہم بلاتے بھی نہ تھے
صاف چھپتے بھی نہ تھے

Free Traffic Exchange

Videos similaires