رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
جنابِ صدر اور محترم حاضرین اسلام علیکم
جنابِ والا تقریر کا عنوان ہے ’’ رزم حق و باطل ہو،تو فولاد ہے مومن‘‘۔ اس بات میں تو دو رائے ہو ہی نہیں سکتی کہ مومن ۔۔۔ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہوتا ہے ۔تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ مومن۔۔ بے تیغ بھی لڑا ہے ۔ حال ہی میں جو جنگیں پاکستان کی ہوئیں ہیں اُن میں بھی ہمارے شاہینوں نے بہادری اور شجاعت کی داستانیں رقم کی ہیں، پر جناب صدر۔۔۔ آج کے اس دور میں جب کانسپائیریسی تھیوریزکے زور پر حکومتیں گرائی۔۔۔ اور بنائی جاتی ہیں ، اور سٹاک ایکسچینج میں۔۔۔ مندی کا رجحان پیدا کرکے قوموں کی معیشت کو تباہ کیا جاتا ہے، یہ بات انتہائی اہمیت اختیار کر گئی ہے کہ حق و باطل کی لڑائی کے پہچان کے جدید۔۔۔۔ پیمانے ۔۔۔متعین کر دیئے جائیں۔
جنابِ والاآج کا موضوع ۔۔اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ آج ۔۔پاکستانی نوجوان اس ذہنی تناؤ کا شکار ہے کہ آیا۔۔ وہ پاک فوج کا سپاہی بن کر، شہادت کے عظیم الشان مرتبے پر فائز ہو سکتا ہے، یا اللہُ اکبر کا نعرہ لگا کر۔۔۔۔۔ در و دیوار کو معصوموں کے خون میں نہلا کر۔۔اللہ تعالیٰ کے حضور سر خرو ہو سکتا ہے۔ جنابِ صدر شہادت اور جہاد کے تصور سے کس کو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ہم نے دیکھا کہ کیسے مذہبی سوچ رکھنے والے ۔۔نوجوانوں کو شہادت کا جانسہ دیکر پشاور میں خون کی ہولی کھیلی گئی۔وہ خون جو والدین نے برسوں کی محنت سے بچوں کے جسم کا حصہ بنایا تھا وہ لمحوں میں زمین پر ایسے پڑا ہوتا ہے جیسے کسی نے جانور ذنح کئے ہوں۔وہ بچے جن کا معمولی بخار اور چوٹیں والدین کو رات بھر سونے نہیں دیتے وہ بچے خون میں لت پت پڑے ہوتے ہیں۔وہ بچے جن کی جھوٹ موٹ کی فرمائشیں بھی والدین پوری کرتے ہیں اُن کی فریاد اور التجاوؤں نے اُن درندوں پر کوئی اثر نہیں کیا۔
ایسے میں اسرافیل نے خدا کی طرف ایک بار تو ضرور دیکھا ہوگا۔صور پھونکنے کی التجا تو ضرور کی ہوگی۔پھر جب ان بچوں کی لاشیں ماؤں نے دیکھی ہونگی تو اسرافیل نے صور پھونک دیا ہوگا ۔ ہم تو گونگے بہرے اور اندھے ہیں ۔ ہمیں سُنائی نہیں دیا ہوگا۔ماؤں کی چیخیں ’’منفوش‘‘ کی طرح ہواؤں میں بلند ہو تو رہی تھی، ماؤں کے دل پھٹ تو گئے تھے، وہ پیٹ جس میں یہ بچے نو مہینے پلتے ہیں اُن میں آگ لگ تو گئی تھی۔جب اِن بچوں کی سفید پٹیوں سے بندھی تھوڑیاں اور انگوٹے ماؤں نے دیکھے ہونگے تو کہا تو ہوگا ۔۔۔۔۔میرے بچے میرے نونہال۔۔۔
معزز حاضرین محفل آج تک کسی نے یہ بات نوجوانوں کو سمجھانے کی کوشش نہیں کی کہ بابائے قوم نے پاکستان مسلح جہاد سے نہیں بلکہ سیاسی جدوجہد سے حاصل کیا۔وہ مخالفین کے سیا سی راستے میں فولاد کی دیوار کی طرح کھڑے ہوگئے تھے۔ لیکن افسوس صد افسوس ۔۔۔کہ قائدَ اعظم کے اس تصور جدوجہد کو ابھارنے کی بجائے نوجوانوں کو مسلح جدوجہد پر اُبھارا گیا اور آج حالات آپ کے سامنے ہیں۔
جنابِ والا حق اور باطل کو سمجھنے کیلئے ہمیں دشمن کے طریقہ واردات کو سمجھنا ہوگا ورنہ فولادی دیوار ہونے کے باوجود ۔۔۔کامیابی دشمن کو ہی ملے گی۔ آج کے دور جدید میں سامراجی طاقتیں پہلے میڈیا کے ذریعے کسی قوم کو ڈراتی دھمکاتی ہیں۔ اگر میڈیا وار کامیاب نہ ہو تو اگلہ مرحلہ معاشی پابندیوں کا ہوتا ہے۔ اگر قوم معاشی پابندیوں کے نمرودی آگ سے نکل آئے تو اُسے سول وار میں الجھا دیا جاتا ہے اور آخری حربہ جدید ٹیکنالوجیکل وار کا ہوتا ہے۔ جس میں سامراجی قوتیں۔۔ زمینی فوج اُتارنے سے پہلے ہی۔۔ مدِ مقابل قوت کو تہس نہس کر دیتے ہیں اور باغیوں کو حکومت سونپ کر جمہوریت کا راگ الاپا جاتا ہے اور قوم کے وسائل پر ق