حکیم طارق محمود چغتائی مجذوبی دامت برکاتہم کا درس 12مارچ 2015 ۔ دُکھی انسانیت کا مرہم (خاص درس)
مراحل حیات زندگی کے مراحل گزررہے ہیں، گزرجائیں گئیں ہم نہ ہوں گے تو کسی اورکے چرچے ہوں گے۔ لوگ کہتے ہیں کہ زمانہ گزر رہا ، وقت گزررہا، اصل میں ہم خود گزررہے۔ جوآج صبح تھی آج سے 5/10/20صدیاں ہزار سال پہلے کی وہی صبح تھی۔ سورج اورچاند بہت پرانا ہے اس نے کئی دَوردیکھے اور زمانے دیکھے۔ ہم سب فنا ہونے والے ہیں، ہماری حقیقت فنا ہے رب کی حقیقت بقا ہے۔ آپ ایک سفرکولے کرچلے اور وہ سفرروح کا ہے وہ سفرزندگی کا ہے۔آپ ایک انوکھے سفرکولیکرچلے ہیں۔ سفرایسا ہے عنقریب ختم ہونے والا ہے اس سفرکولے کرچلے۔ رُکنا نہیں تھکنا نہیں، روحانیت اور اعمال وہ ٹانک ہیں جب ساری دنیاکی دوائیں، حکیم، ڈاکٹر، معالج، سائنس دان عاجز اور بیکارہوجاتی ہیں تب یہ ٹانک کام آتے ہیں۔ یہ اعمال کاٹانک، یہ ایمان کاٹانک، یہ اخلاص کاٹانک ، یہ اللہ پاک کی محبت کا ٹانک، یہ اللہ کے تعلق کاٹانک پھرکام آتا ہے۔ جب ساری تدبیریں ناکام ہوجاتی ہیں ویہی سے تقدیرکانظام کام کرتا ہے اورتقدیرکی سمجھ آتی ویہی ہیں۔کسی نے پوچھا دولفٖظوں میں تقدیرتوبتادیں، اُس نے کہا سارے اسباب ہوں عقل بھی ہوں، سمجھ بھی ہو، سب کچھ ہو مگرگھرمیں آٹا نہ ہو۔ آج مخلوق بہت پریشان ہے، عبقری امن کاپیغام لیکر، خیرخواہی کاپیغام لیکر ، مخلوق کے لیے رواداری کاپیغام لیکر۔ لوگ ترستے ہیں،سسکتے ہیں، اپنی مشکلات اورمسائل کوحل کرنے کے لیے مگران کو کوئی راہ دکھانے والا نہیں۔ تسبیح خانہ ان کو راہ دکھانے کے لیے اورخودبھی راہ پانے کے لیے۔ دُکھیاروں کوراہ دکھا دوں۔ آج انسانیت پریشان ہے، اس پریشان انسانیت کا کون ہے؟آج دُکھی انسانیت کے لیے محمدبن قاسم چاہیے جو ان کے دُکھوں پرمرہم رکھے۔ تسبیح خانے کی آواز پرمخلوق متوجہ کیوں ہوئی، کہ اصل میں ہمارا ٹائٹل انسانیت ہے، کوئی گروہ نہیں، کوئی مسلک نہیں۔اس دُکھی انسانیت کا کچھ سوچیں۔ سُکھ اورچین کے لیے انسانیت مراقبہ اوریوگابڑھ رہا، سکون حاصل کرنے کی مشقیں جو ہندوازم میں ہیں وہ بڑھ رہی شاید سکون ملے جائیں، وہ تدبیریں وہ دوائیں زیادہ بڑھ رہی سکون مل جائیں۔ ڈرامے ، میوزیکل تھیٹربڑھ رہے ہیں۔ ہنسانے والوں کی قیمت اوراہمیت بڑھ رہی مگرسکون نہ ملا۔ ساری دنیا عاجز ہوگئی اورپریشانی نظرآرہی ہے مگرحل کہیں نظرنہیں آرہا۔ نیٹ پرلوگ سکون کی تلاش میں نکلے مگرنیٹ نے ایسا ڈسا ،نسلوں کونہ بوڑھا بچا نہ جوان بچا نہ پردہ دارخاتوں بچی نہ پردے والی بچی نیٹ نے ایسا ڈسا۔ اور زندگی سسکتی اورسلگتی ایک راکھ بن گئی جس میں چند چنگاریاں ہیں باقی کچھ نہیں۔ سوچیں ٹھنڈے دل سے سوچیں۔ میرے پاس فیملی آتی ہیں اوریہ کہتی ہیں کہ ہم آپ کا شکریہ اداکرنے آئے ہیں ، ہم آپ کو دیکھنے آئیں ہیں۔ ہم آپ کو یہ بتانے آئی ہیں کہ ہماری زندگی میں یہ تھا اوریہ ہوگئے ۔کوئی دن ایسانہیں تھا کہ میاں بیوی نہ لڑتے ہوں۔ کوئی دن ایسا نہیں تھا کہ میں بچوں کو نہ مارتی ہوں۔ کوئی دن ایسا نہیں تھا کہ ہماری گھرمیں لڑائی نہ ہوتی ہو۔ کوئی دن ایسانہیں تھا کہ ہماری زندگی میں پریشانیاں نہ ہوں۔ جب سے اعمال شروع کیے ہیں، درس کاسننا شروع کیا ہے اللہ نے زندگی میں سکھ چین اور سکون عطا کیے ہیں۔ اللہ والوں مخلوق کو سُکھ دو۔ میرے دو درس نیٹ پر چلے اس پرلوگوں نے کہا کہ آپ نے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں۔ نیٹ ہمارے معاشرے کو کتنا ڈس رہا ہے۔ شادیاں ناکام، گھرناکام، ماں باپ کی محبتیں ختم، زندگی کاساتھ ختم وجہ نیٹ اورنظروں کے اندرکی جو پاکیزگی جاتی ہے اس سے جو رزق ختم ہوتا ہے اور رزق کی جو برکت ختم ہوتی ہے آپ سوچ نہیں سکتے۔ انسانیت کو کچھ دینا ہوگا۔