AMER AMEER - MUSHAERA WALTHAM FOREST -

2015-01-04 1

تجھ میں اور مجھ میں وہ اب رازو نیاز آئے کہاں؟
اب میسر دھوپ میں ہیں زلف کے سائے کہاں؟
جانے والے سوچ کر جانا کہ بے حد شوخ ہے
کیا پتہ ہے ایسے دل کا کس پہ آ جائے کہاں؟
تیرے میرے گھر میں جو دیوار حائل ہوگئی
تیشۂ پُرزور کو مشکل ہے کہ ڈھائے کہاں؟
تم انا کے پاسباں تھے، ہم بھی غیرت کے امیں
تم جو سُن پائے نہیں تو، ہم بھی کہہ پائے کہاں؟
تیرے پہلو سے جو ہجرت کر کے آیا تھا وہی
بے اماں، بے فیض، بے توقیر دل جائے کہاں؟
مے کدے سے بے اثر نکلے تو اُس کے گھر گئے
ہم کہاں سے پی کے آئے اور چکرائے کہاں؟
اُس کے گھر ہم چائے پہ مدعو تھے، سب اچھا رہا
واپسی پر یاد آیا، رہ گئی چائے کہاں؟
عامر امیرؔ

محبت برملا ہے یہ اشاروں سے نہیں ہوتی
سمندر کیا ہے ؟ آگاہی کناروں سے نہیں ہوتی
مری قسمت ہے میرے ہاتھ میں، ہے کون جو بدلے؟
کہ یہ جرات تو خود میرے ستاروں سے نہیں ہوتی
کسی اُمت کسی ملت کی اونچائی حقیقت میں
معیاروں سے تو ہوتی ہے مِناروں سے نہیں ہوتی
مجھے اپنے پیاروں سے کوئی شکوہ نہیں کیونکہ
مجھے کوئی توقع اپنے پیاروں سے نہیں ہوتی
نباہے دیر تک جو دشمنی وہ سامنے آئے
ہماری دشمنی بے اعتباروں سے نہیں ہوتی
محبت کی، نباہی، اور دشمن کو عطا کر دی
وہ ہم نے بات کی جو آپ ساروں سے نہیں ہوتی
عامر امیرؔ